اردو تحاریراردو سفر نامے

ظفر ہیں نیلم و الماس پتھر ایک صانع کے

ظفر ہیں نیلم و الماس پتھر ایک صانع کے

Everything in nature contains all the power of nature.
Ralph Waldo Emerson
فطرت کا ہر منظر قدرت کی بھرپور طاقت کا مظہر ہے
رالف والڈو ایمرسن

ساڑھے تین بجے ٹریک کا باضابطہ آغاز ہوا۔
نل تر جھیل سے لوئر شانی جانے والی پگڈنڈی پر رکھا جانے والا دئینتر پاس ٹریک کا پہلا قدم تفکرات میں گھرا ہونے کے باوجود نہایت پُر جوش، پُر عزم، پُر امید اور پُر تجسس تھا۔
کیا میں ٹریک مکمل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا؟
دئینتر پاس ایک ٹیکنیکل ٹریک کہلاتا ہے۔
میں ٹریکنگ کی الف … بے … نہیں جانتا۔
میری عمر کے کسی شوقیہ پاکستانی ٹریکر نے آج تک دئینتر پاس عبور نہیں کیا۔
اللہ کرے ایسا ہو کہ میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے نہ رہوں اور اپنے نام نہاد ٹریکنگ کیریئر کا پہلا ’’پاس‘‘ عبور کر کے اپنے رک سیک پر ’’ٹریکر‘‘ کا لیبل چسپاں کر سکوں۔
اللہ کرے ایسا ہی ہو۔
نل تر جھیل نہیں چاہتی تھی کہ اسے مایوسی کے عالم میں خدا حافظ کہا جائے۔مجھے صورت پسند نہیں آئی تو اس نے سیرت کے جال میں الجھا لیا۔
ہم نے اپنے اپنے رک سیک اٹھا کر چند ہی قدم اٹھائے ہوں گے کہ گھنگھور گھٹاؤں نے راگ ملہار چھیڑ دیا۔ ایک طرف سورج کی کرنیں سیاہ بادلوں میں نقب لگا رہی تھیں اور دوسری طرف نل تر جھیل کے سبز گوں پانی میں رم جھم رم جھم پڑنے والی پھواریں جادو جگا رہی تھیں۔ ہم رک سکو دوبارہ زمین پر ٹکانے اور خود ٹک جانے پر مجبور ہو گئے۔
ہمارے قدموں میں بیڑیاں ڈالنے والا سحر نل تر جھیل کے پانیوں میں رقص کرنے والی قوسِ قزح سے پھونکا جا رہا تھا جس کے طلسماتی رنگ جھیل کے شیشہ ور پانیوں سے مل کر لازوال منظر تخلیق کر رہے تھے۔ اس رقص کی فتنہ انگیزی کسی ایرے غیرے کی طبع آزمائی خاطر میں نہیں لاتی، پروین شاکر کے شیریں لبوں سے الفاظ کا جامہ پہنے ہے۔
نل تر کے ایک قطرے میں
جب سورج اتر آئے
رنگوں کی تصویر بنے
دھنک کی ساتوں قوسیں
اپنی بانہیں پھیلائے
نل تر کے بھیگے سے بدن میں
رنگوں کی دنیا کھینچ لائیں
رنگوں کی یہ دنیا بہت حسین تھی،آنکھوں کے راستے دل میں اترتی تھی۔ہم سب اسے دل کے ساتھ ساتھ کیمرے میں بھی قید کر رہے تھے تاکہ جب چاہیں ’’آف لائن‘‘ رہ کر بھی اس کی دلکشی سے لطف اندوز ہو سکیں۔
’’جی ڈاکٹر صاحب!کیا فرماتے ہیں آپ اس جھیل کے بارے میں ؟‘‘ عرفان نے موقع غنیمت جان کر سوال کیا۔
’’راجپوت کی زبان ایک ہوتی ہے۔جو فرمانا تھا فرما دیا۔‘‘
’’پھر آپ نل تر جھیل کے کنارے وقت ضائع کیوں کر رہے ہیں ؟‘‘
’’میں بارش کے قطروں اور سورج کی کرنوں کا کھیل دیکھ رہا ہوں۔ جھیل بارھویں کھلاڑی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔آپ اس منظر کا کریڈٹ نل تر جھیل کو کیسے دے سکتے ہیں ؟‘‘
سورج نے غالباً میرے تبصرے کو پسند نہیں کیا اور اپنی کرنوں کا زاویہ بدل لیا۔ جھیل میں نظر آنے والا قوسِ قزح کا عکس آہستہ آہستہ معدوم ہوتا گیا اور ایک لازوال منظر کا طلسم نل تر جھیل کے پانیوں میں ڈوبنے لگا۔ چند لمحے بعد سورج پوری طرح گھٹاؤں کے پردے سے نکل آیا اور رنگوں کی دنیا چکا چوند روشنی میں گم ہو گئی۔میں نے احساسِ ندامت اور احساسِ شکست کے ملے جلے جذبات کے ساتھ نل تر جھیل کی پرسکون سطح پر ایک نظر ڈالی،اپنا رک سیک اٹھایا اور عالم خان کے پیچھے چل دیا جو نل تر جھیل کی فضاؤں کے بدلتے رنگوں سے بے نیاز اگلے پڑاؤ کی طرف گامزن تھا۔ وہ بزرگ جو بہ ظاہر اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں تھے، ہمارا سارا سامان پشت پر باندھے عالم خان سے چار ہاتھ آگے چل رہے تھے۔سفر کا آغاز نل تر نالے کے بائیں کنارے کے ساتھ ساتھ ہوا۔ تقریباً بیس منٹ بعد ہم نے نل تر نالے پر درخت کے تنوں سے بنایا گیا پل عبور کیا اور نالے کے دائیں کنارے پر آ گئے۔
نل تر جھیل سے لوئر شانی ایک روایتی پہاڑی راستہ ہے جو بہ تدریج بلندیوں کی طرف گامزن رہتا ہے۔ میدانی علاقوں سے آنے والوں کے لیے بلندی کا سفر غیر متوقع تھکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ چڑھائی کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے معمولی چڑھائی پر بھی سانس پھولنے لگتا ہے اور تھوڑی سی چڑھائی حیران کر دیتی ہے۔ پریشان ہونے کے بجائے رفتار میں کمی کر کے دشواری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔اس دشواری سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ہی میں غیر معمولی سست رفتاری کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
جھیل سے کچھ آگے وادی کا دامن قدرے تنگ ہو گیا اور ہم ایک نا تراشیدہ راستے پر شمال کی سمت بڑھنے لگے۔میں رفتہ رفتہ اس عظیم الشان منظر کا حصہ بنتا گیا اور اپنی انفرادیت گم کر بیٹھا۔ دائیں جانب سر سبز و شاداب پہاڑی سلسلہ تھا جس کی دراڑوں سے جھانکتے ہوئے پہاڑی پھولوں کے گل دستے خوش آمدید کہتے تھے۔ بائیں جانب کا وسیع منظر کسی حیرت کدے سے کم نہ تھا۔ یہ چند سو میٹر عریض پتھریلا میدان تھا جس میں نل تر نالے کے صاف و شفاف پانی بہتے تھے اور ان کا پتھروں سے ٹکراؤ فضا میں مدھر تانیں بکھیرتا تھا۔ اس میدان کے اس پار وادی نل تر کی برف پوش چوٹیاں فلک کے بوسے لیتی تھیں لیکن ان پر منڈلانے والی بدلیاں انھیں گستاخ نظروں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ یہ بانکی گوریاں بدلیوں کے گھونگٹ میں شرماتی اور دلوں پر بجلیاں گراتی تھیں۔
کوہستانی مناظر بیان کرتے ہوئے مجھے رانا محمد یونس کا چوتھائی صدی قبل ہنزہ میں دیا گیا بیان اکثر یاد آ جاتا ہے۔انھوں نے فرمایا تھا:
’’مجھے سب پہاڑی منظر ایک جیسے لگتے ہیں۔ ایک طرف منہ زور دریا، دوسری طرف برف یا سبزے سے ڈھکے ہوئے مٹیالے پہاڑ اور ان دونوں کے درمیان کچی پکی سڑک جس پر میں احمقوں کی طرح منہ اٹھائے چلتا ہوں اور خرچ کیے گئے پیسے حلال کرنے کے لیے فطرت کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کی جھوٹی سچی اداکاری کرتا رہتا ہوں۔ ‘‘
بیان کی حماقت اپنی جگہ،لیکن بار بار د کھائے جانے والے ایک ہی منظر میں طرح طرح کے رنگ بھر کر دل فریبی کے نت نئے سامان پیدا کرنا ہی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اعلان ہے، جسے سن کر شہنشاہِ لال قلعہ بہادر شاہ ظفر حیران ہے:
ظفر ہیں نیلم و الماس پتھر ایک صانع کے
بنایا رنگ پتھر کا سیاہ کیسا، سفید کیسا
ایک بلند چٹان کی چوٹی سے گزرتے ہوئے عرفان نے فوجی انداز میں کاشن دیا۔
’’ڈاکٹر صاحب!‘‘
’’جی صاحب۔‘‘
’’گھوم جائیں۔ ‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’آپ گھوم جانے کا مطلب نہیں سمجھتے؟میرا مطلب ہے اباؤٹ ٹرن پلیز۔‘‘
میں نے پیچھے دیکھا،اور سچ مچ گھوم گیا۔
’’یہ کونسی جگہ ہے؟‘‘ میں نے کنفیوژ ہو کر سوال کیا۔
’’پاکستان کی دوسری جھیل جس نے آپ کو مایوس کیا۔‘‘
’’نل تر؟‘‘ میرے لہجے میں بے یقینی تھی۔
‘‘ جی … نل تر۔‘‘
نل تر میرا مضحکہ اڑانے پر اتر آئی تھی۔دنیا کا کوئی بھی شخص،خواہ وہ اپنی بات پر قائم رہنے والا راجپوت ہو،یا بد ذوقی کا عالمی چمپئن،اس مقام پر کھڑے ہو کر بیان جاری نہیں کر سکتا تھا کہ نل تر جھیل نے اُسے مایوس کیا … یہ وہ لینڈ سکیپ نہیں تھا جو ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔
یہ ایک گل و گلزار لینڈ سکیپ تھا جس میں ایک نہیں، چار جھیلیں دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں۔ ایک وہی جگمگاتا ہوا زمرد تھا جس میں ہم نے دھنک اترتے دیکھی تھی،اور دو نیلم، جن کے نیلے پانیوں سے پھوٹنے والی کرنیں ہمارے سنگ کئی کلومیٹر سفر طے کر چکی تھیں۔ ان سے کچھ فاصلے پر ایک اور جھیل کے شیشہ ور پانی لشکارے مارتے تھے۔سرسبز اور شاداب پس منظر میں جھلملاتے ہوئے یہ جواہر نگار پانی ایک نئی دنیا کی سیر کراتے تھے۔
’’ہم یہاں سے گزر چکے ہیں ؟‘‘ میں نے حسرت آمیز انداز میں سوال کیا۔
’’ظاہر ہے۔‘‘ عرفان نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
’’ہم نے باقی تین جھیلیں کیوں نہیں دیکھیں ؟‘‘
’’وقت بہت کم تھا جناب۔ ہماری آج کی منزل لوئرشانی ہے۔‘‘
نشاط کی کلیاں چننے کے لیے حسن کی قربت اور وقت کی فراوانی شرط ہے۔ہمارے پاس وقت نہیں تھا تو ہم یہاں کیا لینے آئے تھے؟ میرا یہ گمان غلط ثابت ہوا کہ گلگت پہنچنے کے باوجود نل تر جھیل نہ دیکھنے کی خلش دور ہو چکی ہے۔نل تر جھیل کے کنارے کھڑے ہونے کے باوجود نل تر جھیل نہ دیکھنے کی کسک ابھی باقی ہے۔
نل تر جھیل پر آنے والے فطرت پسندوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ اس مقام سے سرسری انداز میں گزرنے کے بجائے یہاں کچھ وقت گزاریں اور باقی تین جھیلوں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوں۔ نل تر جھیل کے بائیں ( مغربی ) جانب ایک چھوٹی سی پہاڑی عبور کر کے آپ نیلگوں پانی کی دو عدد ننھی منی جھیلوں کا دیدار کر سکتے ہیں۔ اسی سمت تقریباً تیس منٹ کے فاصلے پر ان دونوں سے بڑی ایک اور جھیل آپ کو خوش آمدید کہتی ہے۔نل تر جھیل کا اصل حسن دیکھنا چاہتے ہیں تو چاروں جھیلوں کا دیدار کریں۔ وہ جھیل جو عرفِ عام میں نل تر جھیل کہلاتی ہے، صرف کوتی یا بشکری جھیل ہے۔
نل تر جھیل کے اصل حسن کا غائبانہ دیدار کرنے کے بعد میں آگے روانہ ہوا۔ ایک مقام پر نل تر نالا عبور کرنے کا مرحلہ درپیش تھا اور انتہائی تیز رفتار نالے کی تہہ سے بڑے بڑے پتھر جھانکتے تھے جن کی سطح انتہائی چکنی اور پھسلواں تھی۔ نالا عبور کرنے کے لیے بے شک ایک عدد پل موجود تھا،لیکن یہ پل برچ کے درخت کی ایک دبلی پتلی دیمک زدہ شاخ سے بنایا گیا تھا جس پر بمشکل آدھا پاؤں رکھنے کی گنجائش پائی جاتی تھی۔ میرے ساتھی یہ پل عبور کر کے آگے جا چکے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا کروں ؟
میرے لا شعور میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ پہاڑی ندی نالے عبور کرتے ہوئے یا کسی ایسی ڈھلوان بلندی پر چلتے ہوئے جس کی گہرائیوں میں پُر شور پہاڑی دریا بہہ رہا ہو، پھسلنے کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔ پھسلنے سے بچنے کی ارادی کوشش کرتے ہوئے میں اتنا ثابت قدم نہیں رہتا جتنا ایک ٹریکر کو رہنا چاہیے اور اکثر اوقات بلاوجہ ڈرتا رہتا ہوں، کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ میرے ساتھی میری اس کمزوری سے واقف نہیں تھے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ راز اتنے ننھے منے نالے کے کنارے فاش ہو جائے۔ میں نے دل پر جبر کر کے اس پل پر قدم رکھ دیا۔ چند قدموں کا یہ مرحلہ ختم ہوا تو ہتھیلیوں سے بہنے والا پسینہ نل تر نالے کے شفاف پانی کو آلودہ کر رہا تھا۔
اس چھوٹے سے مرحلے نے مجھے بہت بڑے وسوسے میں مبتلا کر دیا۔ میں اگر چار قدم طویل پل عبور کرتے ہوئے اتنا ڈرتا ہوں تو دئینتر پاس کیسے عبور کروں گا جس میں کئی انتہائی مشکل مقام آتے ہیں ؟
تفکرات اور وسوسہ جات کی کیفیت چند لمحے طاری رہی۔ منظر کی دلکشی نے ایک مرتبہ پھر مجھے پُر کیف احساسات میں پناہ دی اور میں آنے والے خدشات سے بے نیاز ہو کر نل تر کی رنگینیوں میں کھو گیا۔وادیِ نل تر ایک تنگ دامن وادی ہے اور پانچ ہزار سے چھ ہزار میٹر بلند چوٹیوں میں گھری ہوئی ہے۔ان میں سے بیش تر چوٹیاں نل تر نالے کے ساتھ ساتھ صف آراء ہیں۔ برف پوش اور سبز پوش چوٹیوں کا اتنا گھنا جھرمٹ صرف نل تر کی انفرادیت ہے۔میرے اور اس برفیلے منظر کے بیچ ایک رکاوٹ حائل تھی۔پورے منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے نل تر نالے کے شوریدہ سر پانیوں سے آنکھیں ملانا ضروری تھا،اور نل تر نالے کے پانی بہت زیادہ گہرائی میں بہتے تھے۔ عرفان اسکولی ٹریک کے دوران دریائے برالدو کے کنارے کنارے چلتے ہوئے کسی حد تک میری کمزوری سے واقف ہو چکا تھا، اُس نے فقرہ کسا:
‘‘ ڈاکٹر صاحب نل تر نالے کے پانیوں سے نظر چرانے کی کوشش میں آپ بار بار اس طرف کی آنکھ بند کر رہے ہیں۔ خیر تو ہے ناں ؟‘‘
میں نے عرفان کی شر انگیزی پر کوئی توجہ نہ دی اور سر جھکائے سفر جاری رکھا۔
’’سر جی آپ نے وہ محاورہ نہیں سنا کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ ایک نہ ایک دن نالے کے کنارے اٹک جائے گی۔‘‘ عرفان باز آنے والا نہیں تھا۔
’’بکرے کی ماں نہیں بکرے کا باپ۔‘‘ بھٹہ صاحب نے تصحیح کی۔’’ڈاکٹر صاحب ادبی آدمی ہیں، گرامر کی غلطی معاف نہیں کریں گے۔‘‘
مجھے علم نہیں تھا کہ شگوفے چھوڑنے والوں کی زبان اتنی کالی ہے۔
ہم نے ایک سنگلاخ عبور کی اور دوسری پر سے گزرنا چاہتے تھے کہ دونوں کے درمیانی خلا میں ایک پُر زور پہاڑی نالا حائل ہو گیا۔اس طوفانی نالے پر پل بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی کیونکہ پتھروں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں تھا اور پتھروں پر چل کر اسے با آسانی عبور کیا جا سکتا تھا۔نالے کے بہاؤ میں چھوٹے چھوٹے پتھر لڑھکتے تھے اور بڑے پتھروں سے ٹکرا کر عجیب قسم کا شور پیدا کرتے تھے۔ عرفان اور طاہر اس ندی نما نالے کے کنارے پہنچے۔ چند لمحے تفصیلی جائزہ لے کر قدم جمانے کیلئے پتھروں کا انتخاب کیا اور اطمینان سے نالا عبور کر گئے۔میں نالے کے کنارے پہنچ کر سچ مچ اٹک گیا۔ کنارے کے فوراً بعد نظر آنے والا پتھر اچھا خاصا گول مٹول تھا اور میرا خیال تھا کہ جونہی اس پر قدم رکھا گیا،یہ لڑھکنا شروع کر دے گا۔ طوفانی دھارے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بلند و بالا جھاگ بھی دشواری پیدا کر رہے تھے۔ یہ گھنے جھاگ ’’راستے کے پتھروں‘‘ کو چھپا لیتے تھے اور پتھریلا راستہ نظروں سے اوجھل ہو جاتا تھا۔ میرا تذبذب دیکھ کر بھٹہ صاحب نے فرمایا :
’’ڈاکٹر صاحب کیٹ واک کی پریکٹس کہیں اور جا کے کر لینا،فی الحال نالا عبور کر لیں۔ وقت بہت کم ہے۔‘‘
میں نے پتھر پر قدم رکھا ہی تھا کہ عرفان نے ’’ذرا سنبھل کے‘‘ کی ہانک لگائی۔ میں سنبھلنے کی کوشش میں پھسل گیا۔پتھر میری توقعات سے زیادہ ثابت قدم نکلا۔ اس نے ہلنے جلنے کی کوشش نہیں کی اور میں لڑھکنے سے بچ گیا۔سوچ رہا تھا آگے بڑھوں یا پیچھے ہٹ جاؤں کہ عرفان نے ایک مرتبہ پھر چیخ و پکار کی:
’’سر جی پھڑوپھڑو،نئی تے گیا جے۔‘‘ عرفان نے شور مچایا۔
’’کیا پکڑوں ؟‘‘ میں نے جھلا کر پوچھا۔
’’کیمرہ۔ او چلیا جے۔‘‘
میں نے اپنے قدموں کی طرف دیکھا اور مزید بوکھلا گیا۔’’کیٹ واک‘‘ کے دوران کیمر ے کا سٹریپ کندھے سے پھسل گیا تھا اور کیمرہ نالا برد ہو کر آہستہ آہستہ دور ہوتاجا رہا تھا۔ میں نے تیزی سے جھک کر سٹریپ پکڑنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں تھوڑا سا لڑکھڑا گیا۔ لڑکھڑاہٹ کے دوران سٹریپ خود بخود گرفت میں آگیا اور سونی سائبر شاٹ نل تر نالے کے پانیوں میں غائب ہونے سے بال بال بچا۔ عرفان اندازہ کر چکا تھاکہ میں نالے میں قدم رکھتے ہوئے جھجک رہا ہوں۔ وہ پتھر پھلانگتا ہوا میری طرف آیا اور میں نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کے سہارے نالا عبور کیا۔ طاہر نے یہ پورا منظر مووی کیمرے میں محفوظ کر لیا۔اُ س کا خیال تھا کہ یہ منفرد شاٹ مجھے شرمندہ کرنے اور مذاق اڑانے کے کام آئے گا،لیکن مووی کیمرہ طاہر سے زیادہ با مروت ثابت ہوا۔اس شرمناک منظر کی ’’کیمرہ بندی‘‘ دیکھ کر اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں کہ کون کس کو ’’پار لنگھا‘‘ رہا ہے؟
دوسرے کنارے پر پہنچ کر میں نے جھینپ مٹانے کیلئے گرجنا برسنا شروع کر دیا کہ عرفان کی ’’بے فضول‘‘ ہدایات اور چیخ و پکار سے گھبرا کر میرا پاؤں پھسل جاتا تو کیا ہوتا ؟
’’بہت اچھا ہوتا۔علامہ اقبال کا شعر نہیں سنا آپ نے؟‘‘
’’کون سا شعر؟‘‘
وہ ایک پھڈا جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار پھڈوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
’’واہ … واہ … سبحان اللہ … اپنا صوفیانہ شعر سن کر علامہ مرحوم کی روح یقیناً جھوم اٹھی ہو گی۔ اس خوبصورت شعر کی شرح بھی بیان فرما دیں۔ سیاق وا سباق کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘ بھٹہ صاحب نے فرمائش کی۔
’’اس کلام کا سیاق و اسباق سمجھنے کی نہیں دیکھنے کی چیز ہے۔شاعر کہتا ہے کہ اس گمنام نالے میں پھسل کر پتھروں سے سر پھٹول کرتے ہوئے دریائے نل تر کے طوفانی دھارے میں تشریف لے جائیں اور اس جہانِ فانی کے ہزاروں پھڈوں سے نجات حاصل کریں۔ ماشاء اللہ، جزاک اللہ!‘‘ عرفان کے بجائے میں نے تشریح کی۔
’’جی نہیں۔ علامہ فرماتے ہیں کہ یہ ممولا فطرت نالا بہت زیادہ خطرناک نہیں ہے۔ اس میں گرنے کے بعد دوبارہ اٹھ کھڑے ہونا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، اور ڈگمگانے کے بعد سنبھلنے والا شاہین صفت کوہ نورد ہر قسم کے بے بنیاد خوف سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔‘‘ عرفان نے اپنے نکتہ نظر سے سیاق و اسباق بیان کیا۔
’’بہت خوب … آپ واقعی اقبال پر اتھارٹی ہیں۔ ذرا یہ بھی فرما دیں کہ اقبال صاحب اسی طرح ڈرتے رہے تو دئینتر پاس کیسے عبور کریں گے؟‘‘
’’فکر نہ کریں، میں انھیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ انھوں نے میرے ساتھ بھانگسہ نالا عبور کیا جو واقعی خطرناک تھا۔ گونر فارم کے نزدیک لینڈ سلائیڈنگ کے علاقے سے گزرتے ہوئے انھوں نے کئی تیز رفتار نالے عبور کئے اور ڈگمگانے کا نام تک نہیں لیا۔یہ بنئے کے بیٹے کی طرح کچھ دیکھ کر ہی گرتے ہیں، بے فضول میں کبھی نہیں پھسلتے۔‘‘
عرفان نے میرے حق میں ایک لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی۔ مجھے علم ہے کہ یہ تقریر کیوں فرمائی گئی۔ ایک اچھا ٹیم لیڈر بخوبی جانتا ہے کہ ٹیم کے رکن کو کس وقت حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے اور کب خوش فہمی میں مبتلا کرنا سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ عرفان اس فن کا ماہر نہ ہوتا تو میں دئینتر پاس ٹریک کیوں کرتا؟
نالے سے آگے کچھ دور تک لینڈ سلائیڈنگ کا علاقہ تھا جہاں پتھر ہی پتھر تھے۔ اس کے بعد دوبارہ سرسبز پہاڑی راستہ شروع ہوا،اور ایک تنگ موڑ پر اچانک غائب ہو گیا۔
میں تذبذب کا شکار ہو گیا۔
یہ ایک سکری زدہ چٹان کا انتہائی ڈھلوانی کنارہ تھا جو سیدھا نل تر نالے تک پہنچتا تھا۔ میرے ساتھی نظروں سے اوجھل تھے اور مجھے علم نہیں تھا کہ وہ یہاں سے کیسے گزرے تھے۔میں نے ناپید راستے کے بجائے چٹان کے اوپر سے گزرنے کا فیصلہ کیا اور آسانی سے نہ صرف چٹان سر کرلی بلکہ چند منٹ میں لینڈ سلائیڈنگ سے تباہ ہونے والا حصہ بھی عبور کر لیا۔ پگڈنڈی دوبارہ نظر آئی … اور میرے ہوش اُڑ گئے۔
نیچے اترنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔پگڈنڈی تک ایک عمودی ’’ڈراپ‘‘ تھا جس کے اختتام پر عرفان ٹانگے پسارے بیٹھا تھا اور میرا مذاق اڑاتا تھا۔
’’آ جائیں … آ جائیں … رک سیک کا نشانہ لے کر چھلانگ لگا دیں۔ بہت آسان راستے سے تشریف لائے ہیں آپ۔‘‘ عرفان نے رک سیک آگے سرکاتے ہوئے کہا۔
’’یہ مذاق کا کون سا موقع ہے؟‘‘ میں روہانسا ہو گیا۔
’’مذاق میں نہیں، آپ کر رہے ہیں۔ ‘‘ عرفان اُٹھ کھڑا ہوا اور نہایت سنجیدہ ہو گیا۔ ’’آپ دئینتر پاس ٹریک پر آئے ہیں یا انارکلی کی سیر کرنے تشریف لائے ہیں ؟ اس طرح ڈرتے رہے تو ہو چکا ٹریک۔‘‘
’’میں آیا نہیں، لایا گیا ہوں۔ ‘‘ میں نے اسے یاد دلایا۔
’’آپ اس لیے لائے گئے ہیں کہ دئینتر پاس ٹریک کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ جہاں سے طاہر گزر سکتا ہے وہاں سے آپ کیوں نہیں گزر سکتے؟‘‘
’’جناب عالی !یہ جھاڑ پٹی بعد میں کی جا سکتی ہے۔فی الحال یہ فرمائیں کہ میں نیچے کیسے اتروں ؟‘‘ میں نے اسے مسکا لگانے کی کوشش کی۔
’’واپس جائیں اور سیدھے راستے سے تشریف لائیں۔ ‘‘ عرفان مسکرایا۔
’’واپس جاؤں ؟‘‘ میں دم بخود رہ گیا۔
’’نہ جائیں، براہِ راست یہاں قدم رنجہ فرمائیں۔ ‘‘ عرفان نے بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رک سیک کی طرف اشارہ کیا۔
میں نے اُسے غم و غصے سے لبریز نظروں سے گھورا۔ نیچے اترنے کے امکانات کا تفصیلی جائزہ لیا،اور کان دبا کر واپس ہو لیا۔
عرفان کے دلائے ہوئے ’’تاؤ‘‘ اور واکنگ سٹک کا اعجاز تھا کہ میں سکری نما راستے سے اتنی آسانی سے گزر گیا کہ خود مجھے یقین نہیں آیا۔ طاہر اور بھٹہ صاحب عرفان کے پاس پہنچ چکے تھے۔مجھے دیکھتے ہی ان کے لبوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی اور مجھے اندازہ ہو گا ا کہ عرفان انھیں میری حماقت سے آگاہ کر چکا ہے۔
’’اس پہاڑی کی چوٹی سے ایک منفرد منظر درشن دیتا ہے۔‘‘ میں نے اطلاع دی۔
’’اچھا؟ کترینہ کیف ڈانس کر رہی ہے؟‘‘ عرفان نے والہانہ انداز میں پوچھا۔
’’آپ اگر وہاں کا چکر لگا آئیں تو کترینہ شطرینہ بھول جائیں گے۔‘‘
’’کترینہ کو میں یہاں بیٹھے بیٹھے بھی بھول سکتا ہوں، لیکن ایک با موقع محاورہ بہت دیر سے تنگ کر رہا ہے۔ یاد آتا ہے،نہ بھولتا ہے۔‘‘
’کون سا ؟‘‘ بھٹہ صاحب نے پُر شوق لہجے میں پوچھا۔
’’ٹھیک طرح یاد نہیں آ رہا۔یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو سو پیازوں کا ذائقہ یاد آنے لگتا ہے۔‘‘ عرفان نے شرارت آمیز لہجے میں کہا۔
’’اور تڑاق تڑاق پڑنے والے سو جوتے یاد نہیں آتے۔‘‘ میں نے جلے کٹے لہجے میں محاورہ مکمل کیا۔
’’سبحان اللہ!میرا مطلب ہے استغفراللہ۔‘‘ بھٹہ صاحب نے داد دی۔
سفر دوبارہ شروع ہوا۔ نل تر وادی کی دلکشی بدستور ہمارے ساتھ سفر کر رہی تھی،لیکن کافی دیر سے محسوس ہو رہا تھا کہ منظر یکسانیت کا شکار ہو چکا ہے۔بائیں ہاتھ نل تر نالا اور نالے کے اُس پار ٹوئن پیک، شانی پیک اور’’سکھیوں‘‘ کے اوپر منڈلاتی ہوئی گھنگھور گھٹائیں۔ دائیں جانب کے سبزہ زار البتہ بعض اوقات سنگلاخ چٹانوں سے ’’واری وٹہ‘‘ کرتے رہتے تھے۔ہم اس منظر سے بہت حد تک مانوس ہو چکے تھے اس لیے رفتار میں کسی حد تک تیزی آ گئی اور ہم سر جھکا کر چلتے ہوئے گوپا نامی بستی کے قریب پہنچ گئے۔بنگلا کی طرح گوپا بھی ایک بکر وال بستی ہے جو صرف موسمِ گرما میں آباد ہوتی ہے۔اس بستی کے لکڑی اور پتھروں سے بنائے گئے جھونپڑوں کا کلاسیکل نام ’’شیفرڈ ہٹس‘‘ (Shephered Huts) ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں اب بھی اَن چھوئی فطرت بسیرا کرتی ہے۔ افسانوی،رومانوی اور طلسماتی ماحول کا لالچ دے کر کوہ نوردوں کو ایسی وادیوں میں ٹریکنگ کی ترغیب دی جاتی ہے جہاں شیفرڈ ہٹس پائے جاتے ہوں۔ مغربی ٹریکرز کے اعزاز میں شیفرڈ ہٹس کی ’’رومانیت‘‘ یقیناً آشکار ہو جاتی ہو گی،ہمارے حصے میں گوپا کے چند ایسے نونہال آئے جن کے جسم پر موجود لباس ناکافی تھا، پاؤں میں’ جوتے ناکافی تھے، ہڈیوں پر منڈھا ہوا گوشت ناکافی تھا اور اُن کی رگوں میں دوڑنے والے خون کے سرخ خلیات ناکافی تھے۔ ان بچوں کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہاں زندگی کتنی کٹھن تھی۔ایک یا دو کمروں پر مشتمل کچے پکے مکانات، ضروریاتِ زندگی نایاب، صحت کی سہولیات مفقود اور تعلیم؟
’’یہ ننھی منی گڑیا رانی سکول جاتی ہے؟‘‘۔ عرفان نے ایک بچی سے ہاتھ ملانے کی کوشش کرتے ہوئے سوال کیا۔
ننھی منی گڑیا رانی یہ پہیلی بوجھنے میں ناکام رہی اور حیران حیران نظروں سے عرفان کی طرف دیکھنے لگی۔وہ اردو سے ناواقف تھی۔عالم خان نے مترجم کا کردار ادا کیا اور عرفان کا سوال بچی تک پہنچا دیا۔بچی نے جواباً کچھ کہا اور عالم خان ہنسنے لگا۔
’’یہ پوچھتا ہے سکول کدھر ہوتا ہے؟‘‘
’’یہاں سکول نہیں ہے؟‘‘ عرفان حیران ہوا۔
’’سکول نل تر میں ہوتا ہے۔ادھر نہیں ہوتا۔ہم روز سکول جاتا اے۔‘‘ ایک بچے نے فخریہ انداز میں بتایا۔
’’کتنی دیر میں پہنچتے ہو وہاں ؟‘‘
’’دیر میں نہیں پہنچتا۔دیر میں پہنچتا اے تو ماسٹر صیب ڈنڈا چڑھاتا اے۔ ام بوت جلدی گھر سے نکلتا اے،شام کو دیر سے واپس آتا اے۔‘‘
گوپا سے روزانہ پیدل نل تر جانا آسان کام نہیں تھا۔ہمارے بچے سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پاکستان کی جنت نظیر وادیوں میں بسیرا کرنے والے بچے علم کی دولت حاصل کرنے کے لیے کتنی مشقت اٹھاتے ہیں۔ کاش اس وقت برخوردار محمد دانیال راؤ میرے ساتھ ہوتا۔ دانیال کی ٹیوشن اکیڈمی گھر سے بیس منٹ کی واک یا پانچ منٹ کی سائیکل سواری کے فاصلے پر ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ وہ اکیڈمی تک سائیکل چلا کر بری طرح تھک جاتا ہے اس لیے فوری طور پر موٹر سائیکل کا بندوبست کیا جائے۔دانیال کی ملاقات اس بچے سے ہو جاتی جو روزانہ دو گھنٹے پیدل سفر کر کے گوپا سے نل تر جاتا ہے تو اُس کے خیالات میں صحت مندانہ تبدیلی کی توقع رکھی جا سکتی تھی۔
عرفان نے بچوں میں ٹافیاں تقسیم کی۔ بھٹہ صاحب نے بچیوں کے لباس پر کی گئی کشیدہ کاری کی طرف توجہ دلائی۔لباس انتہائی معمولی کپڑے سے تیار کیا گیا تھا لیکن اسے رنگین موتیوں اور دھاگوں کے تال میل سے دلکش بنانے کی کامیاب کوشش کی گئی تھی۔ یہ کوشش اس بات کا ثبوت تھا کہ ذوقِ جمال امارت سے مشروط نہیں۔
مجھے انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی جب کسی بچے نے ہمارے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ شمالی علاقہ جات میں غیر ملکی سیاحوں کی باقاعدہ آمدورفت کی وجہ سے بچوں کا ’’ڈالر ڈالر‘‘ کہتے ہوئے کوہ نوردوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ حرکت پاکستانی کوہ نوردوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنتی ہے اور پاکستانی معاشرے کا انتہائی تاریک رخ پیش کرتی ہے۔ آج کل کچھ این۔جی۔اوز کی کوششوں کے نتیجے میں بچوں نے ڈالر کے بجائے پین (Pen) طلب کرنا شروع کر دیے ہیں، لیکن الفاظ کی تبدیلی چہرے کے تاثرات تبدیل نہیں کر سکتی۔
عرفان نے ان بچوں میں ٹافیاں اور چاکلیٹ تقسیم کیے۔ بچوں کے چہروں کی سرخی یہ معمولی تحفے پا کر مزید شوخ ہو گئی اور اُن میں سے کئی ایک نے ’’تھینک یو‘‘ ادا کیا۔ ہم نے گوپا کے معصومین کے ساتھ گروپ فوٹو بنایا اور گوپا کی غربت و افلاس میں پرورش پانے والے غیرت مند ’’گوپیوں‘‘ کا خوشگوار تاثر لیے اپنے راستے پر گامزن ہو گئے۔

ڈاکٹر محمد اقبال ہما

About The Author

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button