مارچ 22, 2023
Asma Faraz
عاصمہ فراز کی اردو نظم

یہ طویل رات کی سختیاں
یہ محبتوں کی اذیتیں
مرے نیم مردہ وجود پر
یہ غموں کی بڑھتی سیاہیاں

مجھے کوٸی آکے سنبھال لے
مجھے کوٸی آکے نجات دے
مرے غم سے مجھ کو نکال دے
کبھی آ کہ تجھ کو خبر نہیں
ترے غم سے کوٸی نڈھال ہے

کبھی اس کا حال بھی پوچھ لے
بڑی دیر سے جو بے حال ہے
نہ مٹیں گی اب یہ سیاہیاں
مری روح میں جو اتر گٸیں
مرا جینا جس سے محال ہے

وہ گیا ہے جب سے یوں چھوڑ کے
مرا درد تب سے شدید ہے
مرا حوصلہ بے مثال ہے
میں تو اب بھی قاٸم وفا پہ ہوں
جو مجھے بھلا کے ہے جی رہا
اسے یاد رکھنا کمال ہے

مجھے ہے یقیں مرے رب پہ کے
مرے سارے غم وہ مٹاٸے گا
وہی میرا واقفِ حال ہے

شبِ آرزو ! تو گزر بھی جا
نہ طویل ہو مری بات سن
میں ہوں مطمٸن یہی سوچ کر
ترے بعد صبحِ وصال ہے

عاصمہ فراز

اس پوسٹ کو شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے