Phir Na Kehna Humko
پھر نہ کہنا ہم کو نالوں سے پریشانی ہوئی
خواب میں سمجھا گئے جو بات سمجھانی ہوئی
شام ہی کو زلف سلجھائی جو سلجھانی ہوئی
دیکھئے وعدے کی شب کتنی پریشانی ہوئی
بات رہ جائے گی پہنچا دو جنازہ دو قدم
تم سمجھ لینا گھڑی بھر کی پریشانی ہوئی
تیر جھٹکے سے نہ کھینچو دیکھو ہم مر جائیں گے !
تم یہ کہہ کر چھوٹ جاؤ گے کہ نادانی ہوئی
جب کسی تیلی نے جنبش کی قفس بدلا گیا!
جب کوئی بازو میں پَر آیا نگہبانی ہوئی
برق جب چمکی تو در ان کا نظر آیا قمر
خیر اندھیری رات میں اتنی تو آسانی ہوئی
قمر جلال آبادی