Phir Ek Daagh Charagh Safar
پھر ایک داغ چراغ سفر بناتے ہوئے
نکل پڑے ہیں نئی رہگزر بناتے ہوئے
وہ جست بھر کے ہوا ہو گیا مگر نہ کھلا
میں کس نواح میں تھا اس کے پر بناتے ہوئے
نکل سکی نہ کوئی اور صورت تصویر
بہائے اشک بہت چشم تر بناتے ہوئے
وہ قہر برہمی بخت ہے کہ ڈرتے ہیں
گرا نہ لیں کہیں دیوار در بناتے ہوئے
قدم قدم پہ سزا دے رہا ہے وقت ہمیں
ہمارے عیب عدو کے ہنر بناتے ہوئے
تو زندگی کو جئیں کیوں نہ زندگی کی طرح
کہیں پہ پھول کہیں پر شرر بناتے ہوئے