مارچ 22, 2023
Timoor
تیمور حسن تیمور کی ایک اردو غزل

وہ جو ممکن نہ ہو ممکن یہ بنا دیتا ہے

خواب دریا کے کناروں کو ملا دیتا ہے

زندگی بھر کی ریاضت مری بیکار گئی

اک خیال آیا تھا بدلے میں وہ کیا دیتا ہے

اب مجھے لگتا ہے دشمن مرا اپنا چہرہ

مجھ سے پہلے یہ مرا حال بتا دیتا ہے

چند جملے وہ ادا کرتا ہے ایسے ڈھب سے

میرے افکار کی بنیاد ہلا دیتا ہے

یہ بھی اعجاز محبت ہے کہ رونے والا

روتے روتے تجھے ہنسنے کی دعا دیتا ہے

زندگی جنگ ہے اعصاب کی اور یہ بھی سنو

عشق اعصاب کو مضبوط بنا دیتا ہے

بیٹھے بیٹھے اسے کیا ہوتا ہے جانے تیمورؔ

جلتا سگرٹ وہ ہتھیلی پہ بجھا دیتا ہے

یہ جہاں اس لیے اچھا نہیں لگتا تیمورؔ

جب بھی دیتا ہے مجھے تیرا گلا دیتا ہے

تیمور حسن تیمور

اس پوسٹ کو شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے