
تیمور حسن تیمور کی ایک اردو غزل
یہ لوگ کرتے ہیں منسوب جو بیاں تجھ سے
سمجھتے ہیں مجھے کر دیں گے بد گماں تجھ سے
جہاں جہاں مجھے تیری انا بچانا تھی
شکست کھائی ہے میں نے وہاں وہاں تجھ سے
مرے شجر مجھے بازو ہلا کے رخصت کر
کہاں ملیں گے بھلا مجھ کو مہرباں تجھ سے
خدا کرے کہ ہو تعبیر خواب کی اچھی
ملا ہوں رات میں پھولوں کے درمیاں تجھ سے
جدائیوں کا سبب صرف ایک تھا تیمورؔ
توقعات زیادہ تھیں جان جاں تجھ سے
تیمور حسن تیمور