Maay Pian Kya Ky Kuch
مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں
ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں
خضر کیا جانیں مرگ کی لذت
اس مزے سے وہ آشنا ہی نہیں
شعر وصفِ دہن میں سُن کے کہا
ایسا مضمون کبھی سُنا ہی نہیں
کس طرح جائیں اُن کی محفل میں
جن کے دل میں ہماری جا ہی نہیں
کیا سُنیں گے وہ خلق کی فریاد
کہتے ہیں جو کوئی خدا ہی نہیں
لذتِ عیش وصل کیا جانیں
اس میں حصہ ہمیں ملا ہی نہیں
کل تلک تھا وہ ربط وہ اخلاص
آج وہ شوخ آشنا ہی نہیں
ہے ہمیں اب تو تیری اُلفت میں
صدمہ وہ جس کی انتہا ہی نہیں
مرنے والوں سے کہتے ہیں وہ امیر
کیا تمہاری کبھی قضا ہی نہیں