Koi Yaad Hi Rakht-E-Safar
کوئی یاد ہی رخت سفر ٹھہرے کوئی راہ گزر انجانی ہو
جب تک مری عمر جوان رہے اور یہ تصویر پرانی ہو
کوئی ناؤ کہیں منجدھار میں ڈوبے چاند سے الجھے اور ادھر
موجوں کی وہی حلقہ بندی دریا کی وہی طغیانی ہو
اسی رات اور دن کے میلے میں ترا ہاتھ چھٹے مرے ہاتھوں سے
ترے ساتھ تری تنہائی ہو مرے ساتھ مری ویرانی ہو
یوں خانۂ دل میں اک خوشبو آباد ہے اور لو دیتی ہے
جو باد شمال کے پہرے میں کوئی تنہا رات کی رانی ہو
کیا ڈھونڈتے ہیں کیا کھو بیٹھے کس عجلت میں ہیں لوگ یہاں
سر راہ کچھ ایسے ملتے ہیں جیسے کوئی رسم نبھانی ہو
ہم کب تک اپنے ہاتھوں سے خود اپنے لیے دیوار چنیں
کبھی تجھ سے حکم عدولی ہو کبھی مجھ سے نافرمانی ہو
کچھ یادیں اور کتابیں ہوں مرا عشق ہو اور یارانے ہوں
اسی آب و ہوا میں رہنا ہو اور ساری عمر بتانی ہو