Karte Bhi Kya Hazoor
کرتے بھی کیا حضور نہ جب اپنے گھر ملے
دشمن سے ہم کبھی نہ ملے تھے مگر ملے
بلبل پہ ایسی برق گری آندھیوں کے ساتھ
گھر کا پتہ چلا نہ کہیں بال و پر ملے
اُن سے ہمیں نگاہِ کرم کی امید کیا
آنکھیں نکال لیں جو نظر سے نظر ملے
وعدہ غلط پتے بھی بتائے ہوئے غلط
تم اپنے گھر ملے نہ رقیبوں کے گھر ملے
افسوس ہے یہی مجھے فصلِ بہار میں
میرا چمن ہو اور مجھی کو نہ گھر ملے !
چاروں طرف سے شمعِ محبت کی روشنی
پروانے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے لائی جدھر ملے
قمر جلال آبادی