
غزل بقلم محمد ولی اللّٰہ ولی ، نئی دہلی
کب کسی کے حسنِ فتنہ گر پہ کہتا ہوں غزل
جو چڑھے نیزے پہ میں اُس سر پہ کہتا ہوں غزل
بھوکے معصوموں کی آنکھوں نے بھلا کیا کہہ دیا!
میں کہ اب اپنی ہی چشمِ تر پہ کہتا ہوں غزل
جس نے بخشی ہیں مِرے سجدوں کو یہ رسوائیاں
میں اُسی ظالم کے سنگِ درپہ کہتا ہوں غزل
میرا آہنگِ غزل ہے اِس لیے سب سے الگ
دیدۂ تر یا دلِ مضطر پہ کہتا ہوں غزل
آرزوئے صبح میں جینا ہے مجھ کو اِس لیے
اپنے خوابوں کے حسیں منظر پہ کہتا ہوں غزل
پھیکا پھیکا سا لگے ہے میرؔ کی دلّی کا رنگ
اَب جو اپنے شہر کے منظر پہ کہتا ہوں غزل
آپ کیجیے فکر اُس محشر کی لیکن میں ولیؔ
جو بپا ہے آج اُس محشر پہ کہتا ہوں غزل
ولی اللہ ولی