مارچ 28, 2023
Sarfraz Aarish
سرفراز آرش کی ایک غزل

جہاں نوردوں کو دنیا میں جو بھی باغ ملا
اگر علم نہ ملا تو وہاں چراغ ملا

یہ کار عشق ہمی سے ہے معتبر جن کو
جبیں پہ بوسہ ملا اور لبوں پہ داغ ملا

ہم ایک دوجے کا منہ نوچنے ہی والے تھے
خدا کا شکر ! ہمیں ہجر کا سراغ ملا

زمانہ میری خموشی سے تھک گیا تو اسے
مری کتاب کو پڑھ کر مرا دماغ ملا

وگرنہ کار جہاں سے نجات کس کو ہے ؟
تری تمنا میں مجھ کو بڑا فراغ ملا

ہمارے عشق کے چرچے پہ اس کے ہونٹ کھلے
ہماری اینٹ سے دیوار کا سراغ ملا

مری شکست کا اعلان جب ہوا آرش
تو ایک دوست کے شانے پہ ایک زاغ ملا

سرفراز آرش

اس پوسٹ کو شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے