مارچ 22, 2023
Asma Faraz
عاصمہ فراز کی اردو نظم

زمانے بھر کی نظر میں جاناں
ہمارے تم ہی تو چارہ گر ہو
تمہارا بنتا ہے
جان لینا
کہ ان لبوں پہ جو اک ہنسی ہے
وہ عارضی ہے
یہ غم چھپانے کی اک سعی ہے
ہمارے دل میں
دکھوں کا موسم
ہی داٸمی ہے
ہماری آنکھوں کے پار اترو
تو تم یہ جانو
کہ ان میں کتنےسہانے خوابوں کی میتیں ہیں
جو بے کفن ہیں
ہمارے دل میں
دبی دبی سی جو حسرتیں ہیں
وہ بال کھولے انھی کی لاشوں
پہ روز و شب بین کر رہی ہیں
کہ ان کی چیخوں کے شور سے اب
ہمارے کانوں کے بند پردے
بھی پھٹ رہے ہیں
کوٸی نہیں ہے جو آکے ان کے
دکھوں پہ روٸے
کہ ان کو تھامے اور ان کے دکھ میں
کوٸی بھی ان کو تسلی دے دے
ہمارے خوابوں کے سب جنازے
جو ہر جگہ پر پڑے ہوٸے ہیں
وہ منتظر ہیں کہ کوٸی آٸے
بھلے نا ان کو وہ زندگی دے
مگر وہ اتنا تو کرتا جاٸے
تڑپتی لاشوں پہ رحم کھاٸے
اٹھا کے ہاتھوں میں خاک اپنے
وہ میتوں پر ہی ڈال جاٸے
تمہیں تو یہ بھی پتہ نہیں ہے
کہ دل کے ارمان مر چکے ہیں
کہ اب تو کچھ بھی بچا نہیں ہے
کبھی جو فرصت ملے تو آٶ
ہماری آنکھوں کے پار اترو
یہاں پہ جتنی بھی میتیں ہیں
انھیں گھڑی بھر کو
تم بھی رو لو
نا رو سکو تو
چلے ہی آٶ
تمہاری آہٹ کی چاپ سن کر
یہ جی اٹھیں گی
وگرنہ یونہی ہمارے دل کے
یہ سرد خانے پڑی رہیں گی

عاصمہ فراز

اس پوسٹ کو شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے