Hichkiyoun Ny Kisi Dewaar Mein
ہچکیوں نے کسی دیوار میں در رکھا تھا
میرے آباء نے جب اِس خاک پہ سر رکھا تھا
دل تھے متروکہ مکانات کی صورت خالی
اور اسباب میں بچھڑا ہُوا گھر رکھا تھا
روح پر نقش تھے وہ نقش ، ابھی تک جن میں
رنگ بچپن کی کسی یاد نے بھر رکھا تھا
دل میں سرسبز تھے اُس پیڑ کے پتے ، جس پر
دستِ قدرت نے ابھی پہلا ثمر رکھا تھا
قافلے ایک ہی سرحد کی طرف جاتے تھے
خواب کے پار ، کوئی خوابِ دگر رکھا تھا
لب تک آتے ہی نہ تھے حرف مناجاتوں کے
ہچکیوں نے کسی دیوار میں در رکھا تھا
چشمِ بینا میں وہ منظر ابھی تازہ ہے ، سعود
میرے آباء نے جس اِس خاک پہ سر رکھا تھا