Guzar Gaya Jo Mere Dil Pe
گزر گیا جو مرے دل پہ سانحہ بن کر
اتر گیا وہ مری روح میں خدا بن کر
ترا خیال شب ہجر پھیلتا ہی گیا
ہزار رنگ کی سوچوں کا سلسلہ بن کر
وفا کے سنگ سے ٹکرا کے احتجاج انا
صلیب لب پہ سسکنے لگا دعا بن کر
بدن کے دشت میں من کی حسین صبحوں کو
نکل رہا ہے غم دہر اژدہا بن کر
کبھی تو دیپ جلیں گل کھلیں فضا مہکے
کبھی تو آ شب ویراں میں رتجگا بن کر
تمام عمر جسے ڈھونڈتے رہے عالؔی
کہیں ملا بھی اگر وہ تو فاصلہ بن کر