مارچ 22, 2023
روبینہ فیصل کی ایک اردو نظم

ایک پرائی گڑیا کے نام

وہ اکیلی بیٹھی ہو تی تو میں اس کے ساتھ جا بیٹھتی
اور ہم مل کے ستاروں میں اس کی گمشدہ ماں کو ڈھونڈتے
نیند کی پریاں اسے بلاتیں
تو وہ میرے بازو پر سر رکھ کر سو جاتی
اسے ممتا کی طلب ہو تی
تو میرے سے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر اسے چوم لیتی
اسے بھوک ستاتی تو
میں اسے بٹر سلائس اور انڈا کھلادیتی
اس کو گرمی لگتی تو
میں اس کو اپنے ہاتھوں سے نہلا دیتی
اس کو مجھ پر لاڈ آتا تو
وہ دیوانوں کی طرح میرے ہاتھوں کو چومتی
لوگوں کے ہجوم میں گھبراتی تو
میری گود میں آکر چھپ جاتی
اس پر زمانے کی تیز دھوپ پڑتی تو
وہ میرے ہاتھوں کے سایے میں آبیٹھتی
اس کے پاؤں سے جوتی اترتی
تو میرے ہاتھوں پر آکر اپنے پاؤں رکھ دیتی
اسے جھولا جھولناہو تا تو
میری انگلی تھامے پارک لے جاتی
مجھے کہانی سنانے کا کہتی تو
میں کہانی کے سارے جن بھوت اپنے اندر اتار لیتی
اوراسے صرف پریوں کی کہانی سناتی
وہ تھوڑی سی بھی مایوس نظر آتی
میں اپنی آنکھوں کے سارے ستارے
اس کی معصوم آنکھوں میں بھر دیتی
اور پھر ایک دن ایسا بھی آیا
وہ میری آنکھوں کی ساری چمک لے کر
کالی دنیا میں کہیں گم ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔
میری گڑیا تھی وہ ۔۔مگر نہ جانے کہاں گم ہو گئی

روبینہ فیصل

اس پوسٹ کو شیئر کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے