Chaman To Hain Naye
چمن تو ہیں نئی صبحوں کے دائمی پھر بھی
ہے میرے ساتھ تو اب ختم قرن آخر بھی
میری ہی عمر تھی جو میں نے رائیگاں سمجھی
کسی کے پاس نہ تھا ایک سانس وافر بھی
خود اپنے غیب میں بن باس بھی ملا مجھ کو
میں اس جہاں کے ہر سانحے میں حاضر بھی
ہیں یہ کھنچاؤ جو چہرے پہ آب و ناں کے لیے
انہی کا حصہ ہے میرا سکون خاطر بھی
میں اس جواز میں نادم بھی اپنے صدق پہ ہوں
میں اس گنہ میں ہوں اپنی خطا سے منکر بھی
یہ کس کے اذن سے ہیں اور یہ کیا زمانے ہیں
جو زندگی میں مرے ساتھ ہیں مسافر بھی
ہیں تیری گھات میں امجد جو آسمانوں کے ذہن
ذرا بہ پاس وفا ان کے دام میں گر بھی
مجید امجد